ہما کی شادی کو تیرہ برس ہوچکے تھے‘ جب سےبیاہ کے سسرال آئی تھی سکھ اس کے نصیب میں نہیں تھا‘ یوں بھی میاں کلرک تھے‘ معمولی آمدنی تھی‘ میاں نے رشوت کو اپنے اوپر حرام کررکھا تھا ‘رشوت لے کر وہ اپنی آخرت کو خراب نہیں کرنا چاہتے تھے۔ بیوی بچوں کی روز نئی فرمائشیں تھیں‘ بچوں کی فیس‘ یونیفارم اور نہ جانے کیا کچھ‘ یوں ماسی رکھنے کا تو تصور ہی نہیں تھا اس لیے سارا کام ہما کو خود ہی کرنا پڑتا‘ سسر تو ہما کے آنے سے پہلے ہی آخرت کو سدھار چکے تھے‘ ساس چار پوتے پوتیوں کے بعد آخرت کا ٹکٹ کٹا کر اپنے رب سے جاملیں جب تک ساس سلامت تھیں ہما کو بچوں کی فکر کم ہی ہوتی تھی۔ ساس بہو پر بچوں کا بوجھ کم ہی ڈالتی تھی۔
جب سے ساس رخصت ہوئی تھی ہما بالکل بوکھلا چکی تھی کسی بچے کو ٹھنڈ لگ گئی‘ کسی کو بخار نے گھیر رکھا‘ کوئی اچھل کود کررہا تھا تو چوٹ لگ گئی‘ ایک بچہ سنبھل نہیں پاتا تو دوسرے کی آمد۔ اب آٹھ بچے تھے‘ ساس کو بھی رخصت ہوئے چھ برس ہوچکے تھے۔ ہمامصروفیت کی ایک مشین بن گئی تھی۔ صفائی سے لیکر سلائی تک خود کرتی‘ پھر آٹھ بچوں کو تین وقت صحیح وقت پر کھانا دینا۔
آج وہ دوپہر کے تمام کام نمٹا کرلیٹی ہی تھی کہ نیند کی جھپکی آگئی اور وہ سوگئی۔ تھوڑی ہی دیر ہوئی کہ بچوں کےلڑنے اور رونے کی آوازیں آنے لگیں بچوں کاجھگڑا خاصا زور پکڑ گیا‘ مار پٹائی ہونے لگی‘ ہما نے لیٹے لیٹے بڑی بیٹی کو آواز دی بچوں کو سمجھا کر پیار سے الگ کردے‘ میں کچھ دیر آرام کرلوں‘ ثنا نے زور دار آواز میں کہا ’’امی میرا صبح کو ٹیسٹ ہے میں اس کی تیاری کررہی ہوں آپ خود ہی بچوں کو دیکھیں۔‘‘ مجبوراً اسے خود ہی اٹھنا پڑا اور بچوں کی جو حالت دیکھی اسے بیک وقت غصہ اور ہنسی دونوں آرہی تھی۔ دونوں بچے ایک دوسرے کو پکڑ کر کھینچ رہے تھے چل میں تجھے تھانے لیکر جاؤں گا جب ہما نے دونوں کو الگ کرکے پوچھا یہ تھانے کا کیا چکر ہے؟ تو بچوں نے بتایا کہ کل ٹی وی پر ڈرامہ آرہا تھا وہ سب ایسا ہی کررہے تھے۔ ہما نے بچوں کو سمجھایا تھوڑی دیر ٹی وی ڈراموں پر افسوس کیا کہ کس طرح ہمارے بچوں کو ٹی وی پروگرام دکھا کر گمراہ کیا جارہا ہے۔
رات نو بجے جب وہ سب کاموں سے فارغ ہوئی تو اس کا انگ انگ دکھ رہا تھا۔ عشاء کی مختصر نماز پڑھی اور اپنے بستر پر جاگری‘ صبح کو آنکھ دیر سے کھلی‘ وضو کیا نماز پڑھی اور کچن کا رخ کیا۔ بچوں کو پراٹھے اور اچار دیا۔ میاں کیلئے فرائی پین میں انڈا فرائی کررہی تھی توے پر سلائس گرم ہونے کیلئے رکھ چکی تھی۔ انڈا پلیٹ میں نکالنے کیلئے ابھی چمچہ لیا ہی تھا کہ کچھ گرنے کی آواز آئی ۔۔۔۔ہما جونہی کمرے کی طرف دوڑی چھوٹا بچہ پلنگ سے چھلانگ لگاتے ہوئے کرسی سے جاٹکرایا۔ ناک سے خون بہہ رہا تھا۔ بچے کو پٹی کرکےخود پھر کچن میں گئی‘ کیا دیکھا سلائس بری طرح جل چکے ہیں انڈا فرائی پین میں کوئلہ لگ رہا تھا۔ جانے اس نے اپنے شوہر کو ناشتے میں کیا دیا۔ بچے سکول اور شوہر دفتر جاچکے تھے۔ اور وہ بے سدھ بستر پر اوندھے منہ گری‘ احساس تب ہوا کہ مسلسل بیل ہورہی تھی۔ دروازہ کھولا تو اس کی کالج کے زمانے کی سہیلی شازیہ کھڑی تھی اسے دیکھ کر ہما بہت خوش ہوئی اور اس سے لپٹ گئی اور پوچھنے لگی تمہیں میرے گھر کا کیسے معلوم ہوا؟ مجھ سے ملنے کا خیال کیسے آیا۔۔۔؟ اتنی حیران کیوں ہورہی ہو‘ کل میں بازار شاپنگ کررہی تھی کہ اچانک تمہارے بھائی پر نظر پڑی‘ تمہارا حال احوال پوچھا اور ساتھ ہی تمہارا ایڈریس لے لیا‘ اس نے اچھی طرح راستہ سمجھا دیا اور میں یہاں پہنچ گئی‘ سناؤ کیسی ہو‘ کتنے بچے ہیں۔ شازیہ نے ایک ہی سانس میں سب کچھ پوچھ ڈالا۔ ارے بیٹھوگی نہیں‘ کھڑے ہی کھڑے سب کچھ پوچھو گی۔ آؤ اندرآؤ ۔۔۔ہما کے پیچھے شازیہ دھیرے دھیرے قدم اٹھاتی ہوئی ڈرائنگ روم میں صوفے پر بیٹھ گئی‘ تم بیٹھو میں چائے بنا کرلاتی ہوں‘ ہما نے کہا۔
شازیہ ڈرائنگ روم کا جائزہ لینے لگی صوفوں کے کور بے حد بوسیدہ ہوچکے تھے‘ وائٹ واش تو شاید مکان بننے کے بعد ہوئی تھی‘ فرش جگہ جگہ سے اکھڑا ہوا تھا‘ چھت پر نگاہ ڈالی تو مکڑی کے جالے جھول رہے تھے‘ ہما کو دیکھتے ہی شازیہ نے آنکھیں نیچے کرلیں‘ ہما چائے لاچکی تھی۔
ہما گھر کی کیا حالت بنارکھی ہے اور تمہاری صحت بھی خاصی کمزور ہوچکی ہے‘ ایسی کونسی افتاد آن پڑی۔ ارے! شازیہ تم نے تومیری دکھتی رگ پر ہاتھ رکھ دیا۔ یہی کیا افتاد کم ہے بچوں کی لمبی قطار ہے‘ ستم یہ کہ آمدنی بھی بہت محدود ہے‘ کتنے بچے ہیں تمہارے۔۔۔؟ آٹھ! آٹھ بچے۔۔۔۔! شازیہ نے ہائیں کہہ کر سر پر ہاتھ مارا۔
ارے! ایک نہیں دو نہیں اکٹھےآٹھ بچے۔تم انسان ہو یا مشین۔ ہما نے کہا ارے کیسی باتیں کرتی ہو یہ تو اللہ کا کرم ہے۔ کیا خبر کونسا بچہ زیادہ ذہین ہو‘ بڑے ہوکر کونسا بچہ اللہ کے دین کا کام زیادہ کرے۔ اللہ نہ کرے کسی کا ایکسیڈنٹ ہوجائے کون سا بچہ والدین کی زیادہ خدمت کرے۔ زیادہ بچے ہوں گے تو نعمتیں بھی زیادہ ملیں گی۔ زیادہ بچے آخرت میں بخشش کا ذریعہ ہیں۔ اصل رہائش تو قبر اور آخرت ہے۔ تم نےتو پوری تقریر ہی کردی۔ شازیہ نے کہا۔ ارے میں تمہارے بھلے کو کہہ رہی تھی تم تو برا مان گئیں۔اگلے سالوں میں اتنے ہی بچے اور ہوگئے تو کہاں بٹھاؤ گی اس فوج کو۔ اب دیکھو ! میرے بھی دو بچے ہیں فیملی مکمل ہے۔۔۔ ارے صرف دو بچوں میں فیملی کیسے مکمل ہوگئی؟ ہما نےپوچھا۔ شازیہ کہنے لگی ارے بھئی بڑا بیٹا چھوٹی بیٹی۔ اس کے بعد میں نے فیملی پلاننگ کا رخ کیا۔
میری مانو تو مشورہ دوں مگر عمل بھی کرنا۔ میرے گھر کے قریب ہی فیملی پلاننگ کا دفتر ہے تم میرے گھر آجانا تمہیں لے جاؤں گی۔ بچوں کی پیدائش کا سلسلہ تو ختم کرو۔ کوئی خاص مسئلہ نہیں ہوگا۔ اتوار کو بھی آفس کھلا ہوتا ہے۔ تمہارے شوہر گھر پر ہوتے ہیں۔ بچوں کو ان کے سپرد کرنا اور مجھ سے ملنے کا کہہ کر میری طرف جلدی آجانا شوہر ناشتہ کروادیں گے۔ دراصل ابلیس بہت عرصے سے اس گھر کو تاک رہا تھا انسان کو گمراہ کرنے کیلئے انسان کا سہارا چاہیے آج یہ سہارا شازیہ کی شکل میں میسر آگیا۔ ہما پوری طرح سے ابلیس کے شکنجے میں کس چکی تھی۔ ابلیس اپنی چال میں کامیاب ہوچکا تھا اور ہما فطرت کی مخالفت کرتے ہوئے اپنے رب کی نافرمانی کا ارادہ کرچکی تھی اب اسے اتوار کے دن کا بے چینی سے انتظار تھا۔
آج اتوار تھا‘ ہما نے بڑی بیٹی ثناء سے کہا میں اپنی دوست کے گھر جارہی ہوں سب بچوں کو اور اپنے بابا کو چائے بنا دینا اور خود بھی پی لینا میں جلدی آجاؤں گی۔ ہما شازیہ کے گھر پہنچ گئی اور دونوں فیملی پلاننگ کے دفتر چلی گئیں۔ ثناء نے چائے بنا کر سب کو چائے دی‘ سارے بچوں اور ثناء کے والد نے چائے پی اور سب چائے پی کر پھر سوگئے۔ اب گیارہ بچ چکے تھے لیکن ہما ابھی انتظار کررہی تھی وہ اب پریشان ہورہی تھی مگر اب یہ سب کچھ برداشت کرنا تھا۔ تقریباً ایک بج چکا تھا شازیہ رکشہ لائی اور ہما کو رکشے میں بیٹھنے کو کہا اور ساتھ میں تاکید کی اب گھر جاکر آرام کرنا بس دو دن میں ٹھیک ہوجاؤگی۔ ہما مستقبل کے سہانے خواب دیکھتی ہوئی گھر پہنچی‘ گھر کا دروازہ کھلا دیکھ کر خوف سے جھرجھری لی۔ اندر قدم رکھا تو موت کا ساسناٹا تھا۔ بچے کیوں نہیں اٹھے‘ میرے شوہر کہاں ہیں؟ اچانک کسی کے قدموں کی آہٹ پاکر دروازے کی طرف دیکھا تو خالہ آتی دکھائی دی‘ انہیں دیکھ کر ہما کی جان میں جان آئی‘ اب خالہ کو ساتھ لے کر پہلے بچوںکے کمرے میں گئی‘ بچے بدستور ابھی تک سورہے تھے۔ اتنی دیر تک تو بچے کبھی نہیں سوتے‘ پھر وہ اپنے شوہر کے کمرے میں گئی وہ بھی بے سدھ پڑے تھے اس نے ہمت کی اپنے شوہر کی نبض کو ٹٹولا پھر قلب پر ہاتھ رکھا اس کی کچھ سمجھ میں نہ آیا۔ پھر بچوں کی نبض اور دل کی کیفیت چیک کی مگر یہ کیا۔ ہر بچے کی ایک ہی کیفیت تھی جیسے سارے بچے اور شوہر موت کی وادی میں چلے گئے ہیں۔ مگر کیسے؟ خالہ بھانجی کی یہ کیفیت تھی کہ کاٹو تو بدن میں لہو نہیں۔ ڈاکٹر کو فون کیا اور فوری گھر پر طلب کیا۔ ڈاکٹر فوراً پہنچ گئے سب کو چیک کیا اور کہا نو کےنو افراد پانچ گھنٹے قبل وفات پاچکے ہیں اور سب کی موت کسی ایک ہی زہریلی دوا سے واقع ہوئی ہے کیونکہ ایک ہی طرح کے جسموں پر نیلے نشان ہیں۔ زہر کی شدت سے کالے ہوتے جارہے ہیں۔
ہما نے یہ سب سنتے ہی چیخ ماری اور بیہوش ہوگئی جب اسے ہوش آیا تو جنازے گھر کے صحن میں موجود تھے۔ یہ زہر میرے شوہر اور بچوں کو دینے والا کون تھا؟ وہ بڑبڑائی اور اپنے بال نوچنے لگی‘ مجھے ان قاتلوں کا پتہ دو کچا چباجاؤں گی‘ زندہ کھاجاؤں گی‘ وہ چیخے جارہی تھی‘ ارے ان قاتلوں کا پتہ بتادو ان کے کلیجے کتوں کو ڈال دونگی۔ چھوٹے بڑے کفن سیے جارہے تھے‘ ایک عزیزہ کی اچانک نگاہ دیوار پر پڑی تو سب کا قاتل دیوار پر نظر آیا انہوں نے ہما کا ہاتھ پکڑ کر اوپر اشارہ کیا !!وہ دیکھو تمہارے شوہر اور تمہارے بچوں کا قاتل دیوار پر بیٹھا ہے۔ وہ! ہما کی زبان سے نکلا دو فٹ اونچی اچھلی اور پھر بے ہوش ہوگئی۔ارے دیوار پر تو صرف ایک چھپکلی تھی‘ ارے اس ننھی چھپکلی نے نو انسانوں کا قتل کردیا۔ ہرطرف کہرام مچا ہوا تھا۔ انسانوں کا جم غفیر موجود تھا۔ ڈاکٹر نے چائے کے کپ چیک کیے اور پھر چائے دانی کی کیتلی کو دیکھا تو اس میں چھپکلی کی لاش موجود تھی۔ کب اور کیسےنو جنازے قبرستان میں پہنچائے گئے ہما کو کچھ خبر نہیں۔ جب ہوش آیا تو خود کو اکیلے چارپائی پر پایا۔ شاید یہ اللہ کی نافرمانی کا انجام تھا۔ اللہ رب العزت قرآن میں فرماتے ہیں اولاد کو رزق کے ڈر سے قتل نہ کرو ہم انہیں بھی رزق دیتے ہیں اور تمہیں بھی۔ سچی کہانی ہے۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں